بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | اسرائیلی بھوک سے مرنے والے فلسطینی بچوں کی کنکال لاشوں کو اپنے لئے ایک لعنت کے طور پر نہیں دیکھتے؛ وہ ان خاندانوں کو ایک جنگی جرم کے طور پر نہیں دیکھتے جن پر خوراک کی تقسیم کے مراکز میں گولیوں کی بارش کی جاتی ہے: وہ مراکز جو امداد فراہم کرنے کے لئے نہیں بلکہ بھوکے فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کے ایک بڑے کیمپ میں لے جانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔
اسرائیلی اس وحشیانہ بمباری کو غیر معمولی نہیں سمجھتے جس میں روزانہ اوسطاً 28 فلسطینی بچے مارے جاتے ہیں۔ وہ غزہ کے کھنڈرات کو درندگی کا شاخسانہ نہیں سمجھتے، جنہیں بموں سے کچل دیا گیا اور بلڈوزروں اور تعمیراتی مشینوں سے منظم طریقے سے (Systematically) مسمار کیا گیا۔ وہ پانی صاف کرنے کے مراکز کی تباہی، ہسپتالوں اور کلینکس کی تباہی کو سفاکیت نہیں سمجھتے ہیں - جہاں ڈاکٹر اور طبی عملہ اکثر اشیائے خورد و نوش کی قلت کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹروں اور صحافیوں کے ارادی قتل پر پلک بھی نہیں جھپکاتے: اب تک اسرائیلیوں کی پیدا کردہ ہولناکیوں کو دستاویزی شکل دیتے ہوئے 232 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
اسرائیلیوں نے اخلاقی اور فکری طور پر خود کو اندھا کر دیا ہے۔ وہ نسل کشی کو میڈیا کے ایسے عدسوں (لینز) کے ذریعے دیکھتے ہیں جو ایک دیوالیہ سیاسی طبقے کے کنٹرول میں ہیں ـ ایسا طبقہ جو صرف وہی سننے دیتا ہے جو خود چاہتا ہے، اور صرف وہی دکھاتا ہے جو خود چاہتا ہے۔
اسرائیلی اپنے صنعتی جنگی سازوسامان کی طاقت اور مغرب کی طرف سے مکمل استثنیٰ (امیونٹی) کے ساتھ قتل و غارت کی چھوٹ سے مخمور اور بدمست ہو چکے ہیں [جبکہ عرب اور مسلم ممالک کی خاموشی یا حتیٰ کہ حمایت بھی انہیں کھلی چھوٹ دے رہی ہے]۔ وہ اپنے گھمنڈ اور اس وہم کے نشے میں مبتلا ہیں کہ وہ تہذیب کے علمبردار ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ کسی قوم ـ بشمول بچوں ـ کو تباہ کرنا جنہیں وہ "انسانی آلودگی" قرار دیتے ہیں، دنیا ـ خاص طور پر ان کی اپنی دنیا ـ کو ایک خوشحال اور محفوظ جگہ بنا دے گا۔
وہ پول پاٹ کے [1] وارث ہیں، ان کے قاتلوں کے وارث ہیں جنہوں نے مشرقی تیمور، روانڈا اور بوسنیا میں نسل کشیاں کیں ـ اور "ہاں: نازیوں" کے بھی وارث۔ اسرائیل، تمام نسل کش ریاستوں کی طرح ـ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی بھی آبادی اپنی تیزرفتاری سے بے گھر اور بھکمری سے دوچار نہیں ہوئی: یہ در حقیقت [نازی انداز کا] "حتمی حل" [2] ہو سکتا تھا اور اس کو اڈولف ایش مان [3] کی توثیق حاصل ہو سکتی تھی۔
بھوک ہمیشہ سے منصوبے کا حصہ رہی ہے، نسل کشی کا پہلے سے طے شدہ باب۔ اسرائیل نے نسل کشی کے آغاز ہی سے منظم طریقے سے خوراک کے ذرائع کو تباہ کر دیا: نانبائیوں اور بیکریوں کو بمباری کا نشانہ بنایا ہے اور غزہ تک خوراک کی ترسیل کو روک لیا ہے - ایک ایسا عمل جو مارچ سے شدت اختیار کر گیا جب اس نے تقریباً خوراک کے تمام ذرائع منقطع کر دیے۔ اسرائیل نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) - جس پر اشیائے خورد و نوش کے لئے اکثر فلسطینیوں کا انحصار تھا - کو نشانہ بنایا اور بغیر کسی ثبوت کے، اس کے عملے پر 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ اس الزام نے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک، بشمول امریکہ کو ـ جو 2023 میں اس ایجنسی کو 422 ملین ڈالر امداد دے چکا تھا ـ کو بہانہ فراہم کیا کہ وہ اپنی مالی معاونت روک دیں۔ پھر اسرائیل نے اکثر UNRWA کے کاموں پر پابندی عائد کر دی۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق، 1000 سے زائد فلسطینی اسرائیلی فوجیوں اور امریکی اجرتیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، جو خوراک کے حصول کے لئے بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کی بھیڑ، اور اس سے پیدا ہونے والی والی افراتفری میں خوراک کے ان چند پیکٹوں میں سے ایک کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے؛ بھیڑ اور افراتفری کی وجہ بھی یہ ہے کہ امریکیوں اور صہیونیوں نے خوراک کی تقسیم کے لئے صرف مختصر سا وقت ـ عام طور پر ایک گھنٹہ ـ مقرر کیا ہے اور پورے غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مبینہ چار مراکز مقرر کئے گئے ہیں؛ اور ان مراکز کو "غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن" کہتے ہیں اور یہ اسرائیل کی منظوری سے حمایت سے قائم کیے گئے ہیں اور آزاد ذرائع انہیں موت کے جال کہتے ہیں۔
وسیع پیمانے پر 21 ماہ کے مسلسل بمباری کے بعد، جب غزہ ایک [ویران] چاند کی سطح جیسے لق و دق صحرا میں بدل گیا، جب فلسطینیوں کو خیمہ بستیوں میں واقع عارضی خیموں کے نیچے یا کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا گیا، جب صاف پانی، خوراک اور طبی امداد تقریباً ناقابل رسائی ہو گئی، جب سول سوسائٹی تباہ ہو گئی، اسرائیل نے فلسطینیوں کو بھوکا مارنے اور انہیں غزہ سے نکالنے کی اپنی منحوس مہم کا آغاز کیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں ہر تین میں سے ایک شخص نے کئی دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہوتا ہے۔
بھوک کوئی خوبصورت منظر نہیں ہے۔ میں نے 1988 میں سوڈان کے قحط کی کوریج کی تھی جس نے تقریباً 250,000 لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔ میرے پھیپھڑوں میں کچھ دھاریاں ہیں - ان سینکڑوں سوڈانیوں کے درمیان کھڑے ہونے کے نشانات جو تپ دق سے مر رہے تھے لیکن ـ میں مضبوط اور صحت مند تھا اور انفیکشن سے بچ گیا۔ وہ کمزور اور دبلے پتلے تھے اور نہ بچ سکے۔
میں نے سینکڑوں ڈھانچے نما چہروں کو دیکھا جو صحرائی علاقوں میں سایوں کی طرح انتہائی کم رفتار سے چلتے نظر آتے تھے؛ لکڑبگھے جو انسانی گوشت کھانے کے عادی ہو چکے تھے، باقاعدگی سے چھوٹے بچوں کا شکار کرتے تھے۔ میں انسانی ہڈیوں کے سفید ڈھیروں پر کھڑا تھا جو گاؤں کے اطراف پر واقع ہوئے تھے، جہاں درجنوں افراد ـ جو کمزوری کی وجہ سے چلنے کی قوت کھو چکے تھے ـ ایک دوسرے کے پاس لیٹے ہوئے تھے اور کبھی نہیں اٹھے۔ ان ہڈیوں کے ڈھیروں میں سے تو بہت سارے پورے خاندانوں کے باقیات تھے۔
بھوکے افراد کے پاس زندہ رہنے کے لئے ضروری کیلوریز نہیں ہوتیں۔ وہ زندہ رہنے کے لئے کچھ بھی کھاتے ہیں - جانوروں کا چارہ، گھاس، پتے، کیڑے مکوڑے، چوہے اور حتیٰ کہ مٹی تک۔ وہ مسلسل اسہال کا شکار ہوتے ہیں۔ سانس کے انفیکشنز کی وجہ سے ان کے لئے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ خوراک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو - جو اکثر خراب اور جراثیم زدہ ہو چکے ہوتے ہیں - توڑتے ہیں اور بھوک کے درد سے بچنے کی امید سے، آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔
بھوک ہیموگلوبین - یعنی سرخ جسیموں میں موجود پروٹین جو پھیپھڑوں سے جسم تک آکسیجن پہنچاتا ہے - اور میوگلوبین - وہ پروٹین جو آکسیجن کو پٹھوں تک پہنچاتا ہے - کی پیداوار کے لئے درکار آئرن کو کم کر دیتی ہے۔ وٹامن B1 کی کمی جو دل اور دماغ کے افعال پر اثر انداز ہوتی ہے، کے ساتھ مل کر خون کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ درحقیقت، جسم اپنے آپ کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔ بافتیں (Tissues) اور پٹھے ضائع ہو جاتے ہیں۔ جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مدافعتی نظام ٹوٹ جاتا ہے۔ اہم اعضاء سکڑنے لگتے ہیں۔ خون کی گردش سست ہو جاتی ہے۔ خون کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ ٹائیفائیڈ، تپ دق اور ہیضہ جیسی متعدی بیماریاں وبائی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر دیتی ہیں۔
کسی بھی چیز پر توجہ مرکوز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کمزور اور دبلے پتلے متاثرین ذہنی اور جذباتی تنہائی اور بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی انہیں چھوئے یا ہلائے۔ دل کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ متاثرین، آرام کی حالت میں بھی، سقوطِ قلب (Heart failure) جیسی کیفیت میں رہتے ہیں۔ زخم مندمل نہیں ہوتے۔ بینائی موتیا بند کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے، یہاں تک کہ نوجوان بھی ان ہی کیفیات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ آخر میں، دوروں اور ہذیانی کیفیت کے ساتھ، دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ عمل ایک بالغ شخص کے لئے 40 دن تک جاری رہ سکتا ہے؛ تاہم بچے، بوڑھے اور بیمار بہت جلد گذر جاتے ہیں۔ یہ وہ مستقبل ہے جسے اسرائیل نے غزہ کے دو ملین افراد کے لئے رقم کیا ہے؛ [مغرب اور مغربی تہذیب کی مکمل حمایت کے ساتھ، جیسا کہ جرمن چانسلر نے حال ہی میں کہا: "ہمیں اسرائیل کو ـ ہمارے لئے ـ یہ گندا کام کرنے دو"؛ یعنی اسرائیل فلسطینی عوام پر یہ مظالم مغرب کی خاطر ڈھا رہا ہے اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 'مغربی تہذیب' کی مکمل منظوری سے ہو رہا ہے]۔.
لیکن یہ وہ مستقبل نہیں ہے جو اسرائیلی دیکھ رہے ہیں۔ وہ جنت دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک یہودی قوم پرست ریاست دیکھ رہے ہیں جہاں فلسطینیوں کا وجود تک نہیں ہے، وہی فلسطینی جن کی زمینیں چھینی گئیں اور ان کے گھروں پر قبضہ کیا گیا، جن کے لوگوں کو محکوم بنا کر اپارتھائیڈ کے حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ کیفے اور ہوٹل دیکھ رہے ہیں جو اس جگہ بنے ہیں جہاں ہزاروں، شاید لاکھوں لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ وہ سیاحوں کو دیکھ رہے ہیں جو غزہ کے ساحل پر آرام کر رہے ہیں - ایک تصویر جو مصنوعی ذہانت سے بنی ہوئی ویڈیو کے ذریعے تیار کی گئی ہے، جسے اسرائیلی وزیر برائے اختراعات، سائنس اور ٹیکنالوجی گیلا گاملئیل [Gila Gamliel] نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔ یہ فلسطینیوں سے خالی غزہ کی تصویر ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے مصنوعی ذہانت کی مضحکہ خیز ویڈیو کی یاد دلاتی ہے۔
نئی ویڈیو میں، اسرائیلی بے فکری کے ساتھ ساحلی ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہوئے دکھائی گئے ہیں۔ بحیرہ روم میں شاندار تفریحی کشتیاں لنگر انداز ہیں۔ چمکدار ہوٹل اور تجارتی عمارتیں، 'بشمول ٹرمپ ٹاور'، ساحل کو گھیرے ہوئے ہیں۔ پرکشش رہائشی علاقے ان جگہوں پر تعمیر کیے گئے ہیں جہاں اب ٹوٹے ہوئے اور ناہموار کنکریٹ کے ڈھیر موجود ہیں۔ اس ویڈیو میں بنیامین نیتن یاہو اور اس کی بیوی سارہ کو ٹرمپ اور میلانیا کے ساتھ ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
گاملئیل، دیگر اسرائیلی رہنماؤں اور ٹرمپ کی طرح، مکروہ انداز میں "غزہ کی نسلی صفائی" کے بجائے "رضاکارانہ نقل مکانی" کی اصطلاح استعمال کرتی ہے؛ یہ اصطلاح اس واضح مجوزہ انتخاب کو چھپا دیتی ہے جو اسرائیل درحقیقت فلسطینیوں کو پیش کر رہا ہے: "یا تو چلے جاؤ یا پھر مر جاؤ۔"
دوسری طرف سے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالئیل اسموترچ نے غزہ پٹی کے "سکیورٹی الحاق" کا مطالبہ کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ غزہ "اسرائیلی ریاست کا ایک لازمی حصہ" بنے گا۔ اسموترچ نے یہ بیان "غزہ کا ساحل - خواب سے حقیقت تک" کے عنوان سے کنیسٹ کے ایک اجلاس کے دوران دیا جس میں غزہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے پیش کئے گئے۔ اسموترچ نے کہا کہ اسرائیل "غزہ کے فلسطینیوں کو دیگر ممالک میں منتقل کرے گا" اور یہ کہ ٹرمپ نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔
اسرائیلی وزیر ثقافتی ورثہ امیخائی الییاہو (Amichai Eliyahu)، ـ جس نے ایک بار غزہ پر ایٹم بم گرانے کا مشورہ دیا تھا، ـ نے اعلان کیا کہ "پورا غزہ یہودی بن جائے گا۔" الییاہو نے کہا کہ "اسرائیلی ریاست تیزی سے غزہ کو مٹانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔" انھوں نے فلسطینیوں کو نازی قرار دیتے ہوئے کہا: "خدا کا شکر ہے، ہم اس شیطانیت کو مٹا دیں گے۔ ہم اس آبادی کو جو 'مائن کیمپف [میری جنگ]' (ہٹلر کی کتاب) کی بنیاد پر پروان چڑھی ہے، ہٹا دیں گے۔" [البتہ، الییاہو یہ نہیں کہنا چاہتے کہ غزہ میں اسرائیل کا رویہ عملی طور پر وہی کچھ ظاہر کر رہا ہے جس کا یہودی ہٹلر پر الزام لگاتے ہیں]۔
نسل کش قاتل، مقامی آبادی کے خاتمے اور اپنی قوم پرست ریاست کے پھیلاؤ کے خیالات کو گلے لگاتے ہیں۔ نازیوں نے اپنی نسل کشی کی مہم - جس میں لاکھوں کو بھوکا مارنا بھی شامل تھا - اسلاو، مشرقی یورپی یہودیوں اور دیگر مقامی لوگوں کے خلاف چلائی جنہیں "اونٹرمینش" (انسانی درجے سے کمتر = Untermenschen = Subhumans) قرار دے کر مسترد کر دیا گیا تھا۔ پھر ان علاقوں کو جرمن بنانے کے لئے وسطی اور مشرقی یورپ میں آبادکار بھیجے جانے کا منصوبہ تھا۔
انسان کے یہ قاتل اس "تاریکی" سے بے خبر ہیں جسے وہ "چھوڑ" رہے ہیں۔ پرتعیش ساحلی جائیدادیں جن کا اسرائیل خواب دیکھ رہا ہے، کبھی وجود میں نہیں آئیں گی - جیسے کہ بوسنیا کے ملبے پر جدید اور خصوصاً صربوں کے لئے بنائے جانے والا دارالحکومت، سونے کے گنبد والا گرجا گھر، شاندار صدارتی محل، 15 منزلہ گھنٹہ گھر، جدید طبی مرکز اور 72 فٹ گھومنے والے اسٹیج والا قومی تھیٹر کبھی تعمیر نہیں ہؤا۔
وہ تین ملین اراکین پر مشتمل پنچاسیلا یوتھ کا اسرائیلی نسخہ ہیں۔ پنچاسیلا انڈونیشیا میں براؤن شرٹس یا ہٹلر یوتھ کے ہم معنی ہے؛ جو [کہا جاتا ہے کہ] 1965 میں ایک نسل کشی جیسے فساد میں ملوث تھے جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہودی آبادکاروں کی یہ غیرقانونی نیم فوجی جرائم پیشہ تنظیموں نے ـ جنہیں اسرائیلی حکومت کی فراہم کردہ خودکار اسلحے سے لیس کیا گیا ہے، ـ دو ہفتے قبل سیف اللہ مصلح نامی ایک 20 سالہ فلسطینی-امریکی نوجوان کو پھندا ڈال کر قتل کر دیا؛ جو اپنے خاندانی زمین کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں مارے جانے والا پانچواں امریکی شہری تھا۔
بے شک جب یہ اسرائیلی [دہشت گرد] اوباش اور غنڈے فلسطینیوں سے فارغ ہوں گے، تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں گے اور ایک دوسرے پر جھپٹنا شروع کریں گے۔
غزہ میں نسل کشی قانون کی حکمرانی کے خاتمے کی علامت ہے - فلسطینیوں کے لئے بھی اور اسرائیلیوں کے لئے بھی۔ یہ رویہ 'اخلاقی نظام کی پیروی کے ڈھونگ' تک کے مکمل انکار کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسرائیلی خود وہی وحشی ہیں جن کی وہ مذمت کرتے ہیں۔ اگر اس نسل کشی میں کوئی بھیانک انصاف موجود ہے، تو وہ یہ ہے کہ اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ اپنا کام ختم کرنے کے بعد، اپنی ہی تخلیق کردہ اخلاقی غلاظت میں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قابل رحم زندگی گذارنے پر مجبور ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: کریس ہیجز (Chris Hedges) - 26 جولائی 2025ع
ترجمہ: فرحت حسین مهدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ پول پاٹ (Pol Pot) کمیوڈیا کی خمیر روژ کے لیڈر کا نام۔
[2]۔ نازیوں کے ہاں کا بدشہرت 'حتمی حل': Endlösung der Judenfrage = Final Solution
[3]۔ اڈولف ایش مان = Adolf Eichmann: ایک نازی جرمن افسر جو یہود دشمنی کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ 1940ء میں گسٹاپو کے اس حصے کا چیف بنا دیا گیا جو یہودیوں کے معاملات دیکھتا تھا۔ اس پر دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام لگایا گیا۔ 1945ء میں اسے اتحادیوں نے پکڑ لیا۔ 1950ء میں بھاگ کر ارجنٹائن چلا گیا۔ آخرکا اسرائیلی گماشتوں نے سنہ 1960ء میں اسے اغوا کرکے اسرائیل پہنچایا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
آپ کا تبصرہ